Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

دادی کے سرپرائز نے ان دونوں کو ہی سرپرائز کر ڈالا تھا ،انہوں نے چپکے چپکے نا صرف منگنی کی تیاریاں کی تھیں بلکہ ایک ہوٹل میں بڑی شاندار پارٹی کی ارینجمنٹ بھی کروائی تھی اور پہلی بار اپنی روایات سے ہٹ کر انہوں نے اس طرح کی تقریب کی تھی جس میں ان کی خواہش پر طغرل نے پری کو انگوٹھی پہنائی تھی۔
”ان کی بوڑھی دھندلائی آنکھوں میں مسرت سچے موتیوں کی مانند چمک رہی تھی ،پری ان سب کی موجودگی خصوصاً باپ کی موجودگی کے باعث سمٹ کر رہ گئی تھی۔
طغرل پر اعتماد تھا اور آج اس کی من کی مراد برآئی تھی ،خوشی سے اس کی بانچھیں کھلی جا رہی تھیں۔ گاہے بگاہے پری کو وہ ترچھی نگاہوں سے دیکھ رہا ہے اور جب دادی کے کہنے پر انگوٹھی پہنائی تو کئی لمحوں تک اس کا ہاتھ تھامے رہا تھا ،اس کے گداز ہاتھوں کی لرزش اسے مسرور کر رہی تھی۔


وہ اتنی نروس تھی کہ اس کے دل کی دھڑکنوں کی صدا وہ برابر میں بیٹھا مزے سے سن رہا تھا۔

”نانی جان سے جوتے کھا کر ہی تم ہوش میں آؤ گے یار!“ معید نے اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے پری کو آزاد کروایا تھا۔
”تم سے برداشت نہیں ہوتی ہے میری خوشی ،جل ککٹر کہیں کے۔“ وہ معید کو گھورتے ہوئے بولا اور پھر دادی کے حکم پر فیاض صاحب نے طغرل کو انگوٹھی پہنائی تھی پھر مبارک سلامت کا شور اٹھا۔
طغرل کو انہوں نے سینے سے لگا لیا تھا پھر کانپتا ہاتھ پری کے سر پر رکھا تو ان کی آنکھیں نم ہونے لگیں وہ امڈتے آنسوؤں پر قابو پاتے کرسی پر بیٹھ گئے، انہوں نے اچٹی نگاہ سے دیکھا تھا۔
پری کی جھکی گردن مزید جھک گئی تھی اور کئی قطرے خاموشی سے رخساروں سے پھسل کر اس کی گود میں جذب ہو گئے تھے۔ ان کا شدت سے دل چاہا کہ اٹھ کر اسے سینے سے لگا لیں اور اتنا پیار کریں کہ عمر بھر کی تمام تشنگی دور ہو جائے مگر پھر وہی جھجک اور تکلف راہ میں حائل ہو گیا جو ایک عرصے سے چلا آ رہا تھا۔ دادی نے کئی نوٹ ان پر سے وار کر ویٹرز کو دیئے تھے اور پھر شاندر ڈنر کا آغاز ہو گیا تھا۔
ڈنر کے بعد آصفہ ،عامرہ اپنی فیملیز کے ساتھ گھر کیلئے روانہ ہو چکی تھیں، فیاض کسی دوست کی عیادت کو چلے گئے تھے تب عادلہ اور عائزہ کی موجودگی میں اماں نے طغرل سے کہا۔
”طغرل! میں عادلہ اور عائزہ کو لے کر گھر جا رہی ہوں ،تم پری کو اس کی ماں سے ملوا کر لے آؤ ،اس خوشی کے موقع پر وہ کیوں اس کی شکل دیکھنے سے محروم رہے۔ اس کا بھی اس پر اتنا ہی حق ہے جتنا فیاض کا ہے۔
”دادی جان! میں ابھی آپ کے ساتھ گھر جانا چاہتی ہوں ،مما کے ہاں کل شوفر کے ساتھ چلی جاؤں گی۔“ اس وقت اس کے ساتھ تنہائی کے خیال سے ہی وہ حواس باختہ ہو رہی تھی۔
”کل کے انتظار میں ،میں اس خوشی کو باسی کرنا نہیں چاہتی پھر وہ ڈرائیور بھی نیا ہے رات کو میں اس کے ساتھ تمہیں اس طرح تنہا نہیں بھیج سکتی، تمہاری نانو کا گھر بھی بہت دور ہے ،طغرل کے ساتھ جانا ہی بہتر ہے تم اسی کے ساتھ جاؤ۔
“ گو کہ وہ بالکل شرافت بھرے انداز میں نگاہیں جھکائے کھڑا تھا مگر پری کو اندازہ تھا وہ دل ہی دل میں خوش ہو رہا ہو گا۔
”دادی جان! اگر اس کو اعتراض ہے میرے ساتھ جانے پر تو آئی ڈونٹ کیئر ،کل دن میں آپ اس کو شوفر کے ساتھ بھیج دیجئے گا۔“ اس نے خاصے برا ماننے والے انداز میں کہا۔
”ارے جب تم ہو تو پھر ڈرائیور کو کیوں بھیجوں اس کے ساتھ؟“ ان کی سادگی بے ساختہ تھی ،عادلہ اور عائزہ کھلکھلا کر ہنس دی۔
”آپ کا مطلب ہے میں ڈرائیور ہوں پارس؟“ دادی کی بات پر وہ بھی مسکرا کر استفسار کرنے لگا۔
”لو بھلا یہ کیا بات ہوئی ،گھر کے مرد یہ کام کریں تو ڈرائیور بن جاتے ہیں اگر بن بھی جائیں تو کیا ہوا یہ کام برا نہیں ہے۔“ حسب عادت وہ تینوں کو آنکھیں دکھاتی ہوئی گویا ہوئی۔
”پری! گھبراؤ نہیں چلی جاؤ طغرل کے ساتھ ،میں کہہ رہی ہوں اور ہاں اگر یہ تمہیں تنگ کرے تو مجھے بتانا پھر انجام دیکھنا اس کا۔
“ وہ حواس باختہ پری سے نرمی سے مخاطب ہوئی تھیں۔
###
شاور سے گرتی تیز بوندیں بھی اس کے اندر بھڑکتی آگ کو ٹھنڈا نہیں کر پا رہی تھیں وہ کئی گھنٹوں سے شاور کے نیچے کھڑا تھا ،تصور میں بار بار کئی مناظر گھوم رہے تھے اور اس کے اندر کی آگ بھڑک رہی تھی۔ دل چاہ رہا تھا ہر سو آگ لگا دے ہر ایک کو قتل کر ڈالے ،اپنی راہ میں آنے والی ہر شے کو نیست و نابود کر دے۔
”شیری… شیری… باہر آئیں بیٹا!“ دروازے پر ہونے والی زور دار دستک اور ممی کی پریشان کن آواز سن کر وہ حواسوں میں لوٹا تھا۔
”تھینکس گاڈ ،آپ ٹھیک ہیں ،میں تو گھنٹوں سے آپ کو باتھ روم میں لاکڈ دیکھ کر گھبرا ہی گئی تھی۔“اسے صحیح سلامت باہر آتے دیکھ کر وہ تشکر بھرے انداز میں بولیں۔
”آپ کیا سمجھیں ممی! میں نے خود کشی کر لی ہے۔
“ وہ ٹاول سے بار رگڑتا ہوا استہزائیہ انداز میں گویا ہوا۔
”ارے کیسی باتیں کرتے ہیں بابا! خود کشی کریں آپ کے دشمن۔“ وہ بری طرح خوفزدہ ہو کر گویا ہوئی۔
”بالکل… میں مجبور کر دوں گا اپنے دشمنوں کو خود کشی کرنے کیلئے ،میرے دشمنوں کو زندہ رہنے کا حق حاصل نہیں ہے۔“
”یہ… یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ کون دشمن؟ کس کی بات کر رہے ہیں آپ؟“ اس کا خونخوار انداز مسز عابدی کو پریشان کر گیا تھا۔
”وہی دشمن جن کو آپ نے کہا ہے ،میرے دشمن خود کشی کریں۔“ لمحے کے ہزار ویں حصے میں اس نے خود کو سنبھالا اور مسکرا کر شوخ ہوا۔
”خیر میں تو مثال کے طور پر کہہ رہی تھی بابا!“ ان کی پریشانی ابھی بھی رفع نہیں ہوئی تھی۔
”ممی پلیز اتنا اسٹرس مت لیا کریں ،میں بھی مذاق کر رہا تھا ،ایم سوری اب کبھی مذاق نہیں کروں گا آپ سے۔“ اس نے ٹاول سائیڈ میں اچھالا اور ان کو قریب بیٹھاتے ہوئے بولا۔
”کوئی کام تھا آپ کو مجھ سے؟“
”جی ڈنر کیلئے رجب بابا کئی بار یہاں آپ کو بلانے آئے تو معلوم ہوا آپ باتھ لے رہے ہیں لیکن تین گھنٹے بعد بھی آپ باہر نہیں آئے تو میں گھبرا کر یہاں آئی تھی۔“
”سوری آپ پریشان ہوئیں ،دراصل میں بہت سستی و تھکن فیل کر رہا تھا۔“
”آپ سچ کہہ رہے ہیں… کوئی اور بات تو نہیں ہے شیری!“ وہ بیٹے کے وجیہہ چہرے پر کچھ اضطراب و بے چینی محسوس کر رہی تھی۔
”کچھ خاص نہیں ممی! کوئی ایسی بات نہیں ہے۔“ اس نے سوچتے ہوئے عام لہجے میں کہا۔
”یہ کیسے ہو سکتا ہے میرا بیٹا کوئی بات سوچے اور وہ بات خاص نہ ہو ،کیا بات ہے مجھے بھی بتائیں۔“ وہ ہمہ تن گوش تھیں۔
”ممی! ڈیڈی کی ناراضگی بڑھتی ہی جا رہی ہے اب وہ مجھ سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے ہیں ،ایسا کب تک چلے گا؟“
”عابدی کی اصول پرست طبیعت کبھی نہیں بدلے گی ،جب تک ان کی بات نہیں مانی جائے گی ان کا رویہ بد سے بدتر ہوتا جائے گا۔
“ وہ افسر وہ لہجے میں اس کی طرف دیکھتی ہوئی گویا ہوئی تھیں۔
”ممی! یہ ڈکٹیٹر شپ ہے ،ڈیڈی صرف اپنی منوانا چاہتے ہیں۔“
”آپ جو بھی سمجھیں شیری! میں کچھ نہیں کر سکتی ،مجبور ہوں۔“
”میں نے فیصلہ کر لیا ہے ممی!“ وہ کھڑا ہو کر سنجیدگی سے بولا۔
”کیسا فیصلہ شیری!“ وہ بھی کھڑی ہو گئی تھیں۔
”ڈیڈ کی بات ماننے کا… اس کے انداز میں پراسراریت تھی۔
”رئیلی شیری!“ وہ گومگر کی کیفیت میں مبتلا تھیں۔
”یس آف کورس رئیلی ممی! میں عادلہ سے شادی کیلئے تیار ہوں۔“ اس نے بازو کے گھیرے میں ان کو لیتے ہوئے مسکرا کر کہا تھا۔
”اوہ… میری جان! میرے بیٹے یہ کوئی مذاق تو نہیں ہے نا؟ کیا آپ اپنے دل سے یہ فیصلہ کر رہے ہیں… عابدی کی خاطر تو نہیں؟“
”میں اپنی خوشی سے فیصلہ کر رہا ہوں ،عادلہ کو میں دیر سے سمجھ پایا ہوں ،وہ بہت اچھی لڑکی ہے۔
”خوش رہو شیری! بہت عرصے بعد میرے دل کو خوشی نصیب ہوئی ہے ،میں ابھی عابدی کو یہ خوش خبری سناتی ہوں۔“
###
اعوان نے اسے وہاں سے جانے کی اجازت نہیں دی تھی اس کی زور زبردستی منت و سماجت کچھ بھی کام نہیں آئی تھی اور بہت متانت سے وہ گویا ہوا تھا۔
”تم فکر کیوں کرتی ہو ماہ رخ! یہ اپارٹمنٹ میں تمہارے نام کر دوں گا اور اگر تم مجھ پر اعتبار نہیں کر پا رہی ہو تو میں یہاں پر نہیں آؤں گا مگر تمہاری ضروریات سے غافل نہیں رہوں گا۔
میں تمہارے اکاؤنٹ میں خطیر رقم جمع کر دوں گا جس کو تم اپنی مرضی سے استعمال کر سکتی ہو۔“
”کیوں…؟ میں یہی جاننا چاہتی ہوں تم مجھ پر اتنے مہربان کیوں ہو رہے ہو جبکہ میں تم پر اپنے دل کا بھید عیاں کر چکی ہوں ،بتا چکی ہوں میں تم سے محبت نہیں کرتی ،میں گلفام کے نام پر زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔ آخری وقت تک اس کا انتظار کروں گی میں ،سب جاننے کے بعد بھی تمہاری یہ مہربانیاں میں سمجھ نہیں پا رہی ہوں۔
“ اس کے لہجے میں پنہاں بے اعتباری و الجھن کئی معنی رکھتی تھی۔
اعوان نے اس کی شک آمیز گفتگو خاصے انہماک سے سنی تھی اس دوران وہ اس کے چہرے کے زاویے و لہجے کے اتار چڑھاؤ کا جائزہ لیتا رہا تھا اور اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ وہ اس پر اعتماد و یقین نہیں کر پا رہی ہے۔
”اچھا… تم میری مہربانیوں کو سمجھ نہیں پا رہی ہو ،تمہارے نزدیک میری ان مہربانیوں کے پیچھے کیا غرض ہے؟ کیا چاہتا ہوں میں تم سے۔
”کیا چاہو گے تم مجھ سے ہونہہ… مجھ جیسی عورت سے مرد کیا چاہ سکتا ہے ،یہ بتانے کی ضرورت ہرگز نہیں ہے اعوان!“ وہ سخت بدظن و تنفر بھرے لہجے میں گویا ہوئی۔
”کتنی بے رحمی سے تم مجھ کو یہ الزام دے کر بری الذمہ ہو رہی ہو ماہ رخ!“ وہ گھائل نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ کر گویا ہوا۔
”اگر مجھے تم سے ناجائز تعلقات کی چاہ ہوتی تو غفران احمر نے چند ہزار درہم کے عوض تم کو مجھے سونپ دیا تھا ،مجھے اس وقت تمہیں حاصل کرنے سے کون روک سکتا تھا؟ پھر میں تمہیں یہاں لانے کے جتن کیوں کرتا؟ تمہیں شادی کی پیشکش کیوں کرتا ماہ رخ! سوچو ،دماغ پر زور ڈالو ،اپنے ذہن میں شک و وہم کے بیٹھے ہوئے ناگ کو مار ڈالو میں وہ کروں گا جو تم کہو گی ،تمہیں مجھ سے کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہئے۔
###
”اس خوبصورت ترین دن بھی تم اپنی بد اعتمادی والی حرکت سے باز نہیں رہ سکی نا ،دادی جان پر میرا امپریشن خراب کروا دیا تم نے۔“ وہ ہوٹل سے خاصے دور نکل آئے تو وہ پری سے گویا ہوا۔
”مائنڈاٹ ،میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی دادی جان سے جو آپ کو بری لگ رہی ہے۔“ اس نے فوراً صفائی پیش کی۔
”تمہیں کیا ضرورت تھی یہ کہنے کی کہ مما کے ہاں کل شوفر کے ساتھ چلی جاؤں گی ،تم کو مجھ پر اب بھی اعتبار نہیں ہے کیا؟“ اس کے بھاری لہجے میں پر سوز دلگر فتگی تھی ،پری نے بے اختیار دیکھا ،ہنستا مسکراتا وجیہہ چہرہ بے حد سنجیدہ ہو گیا تھا۔
کچھ دیر قبل وہ بات بے بات مسکرا رہا تھا ،کزنز کی چھیڑ چھاڑ کے جواب شوخ انداز میں دے رہا تھا ،اس کا لہجہ اس کے شوخ قہقہے اس کی بے تحاشہ خوشی کے مظہر تھے اب وہ بالکل سنجیدہ دکھائی دے رہا تھا۔
”میرا یہ مطلب تو نہیں تھا جو آپ مائنڈ کر گئے ہیں۔“
”چھوڑو یار! تم نے میری ساری خوشی کرکری کرکے رکھ دی ،نامعلوم کس قسم کی بے اعتمادی تم میں بھری ہوئی ہے جو تم مجھ پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں ہو ،اس طرح ہماری زندگی کس طرح گزرے گی؟“ چند لمحے بوجھل خاموشی کے ساتھ سرک گئے پھر وہ بولا۔
”کب تک تم پارس! یہ اعتبار بے اعتمادی کے بھنور میں خود بھی چکراتی رہو گی اور مجھے بھی جکڑے رکھو گی ،محبت کی پرکھ کب کرنا سیکھو گی؟ میں تمہارا محافظ ہوں لٹیرا نہیں۔ تمہاری انا ،تمہاری عزت ،تمہاری خود داری اپنی جان سے بڑھ کر عزیز ہے مجھے۔“
”میرا ماضی ،میرا گزرا ہوا کل میرا پیچھا نہیں چھوڑتا ہے طغرل! میں کیا کروں ،پاپا ممی کی ناکام زندگی میں بھولتی نہیں ہوں۔
“ وہ رندھی ہوئی آواز میں اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر گویا ہوئی تھی۔
”کیا تم ایسا نہیں کر سکتی ہو کہ ماضی کو بھول جاؤ اور خوش رہنے کی کوشش کرو ،آخر وہ بھی لوگ ہوتے ہیں جن کے والدین مر جاتے ہیں ،ایسے لوگ بھی تو صبر کرکے خوش رہتے ہیں۔“ اس نے نرمی سے اس کا ہاتھ شانے سے ہٹاتے ہوئے سمجھایا۔
”کہتے ہیں مرنے والوں کا صبر اللہ دے دیتا ہے لیکن ایسے رشتوں کا صبر نہیں آتا ہے ،جس طرح مجھے نہیں آ رہا ہے۔
”ماضی سے باہر نکل کر دیکھو حال تمہاری راہوں میں خوشیوں کی کہکشاں بکھرائے کھڑا ہے۔ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں میری زندگی میں تم خوش رہو گی ،میں دکھ کا ایک آنسو تمہاری آنکھوں میں برداشت نہیں کر سکتا اور جس دن تم روئیں وہ میری زندگی کا آخری دن ہو گا۔“ اس کا انداز جذباتی اور پر یقین تھا ،پری نے گھبرا کر اس کی طرف دیکھا تھا۔
”آپ سے پہلے میں مر جاؤں گی۔“

   1
0 Comments